Soghaat ka A D Bhai

سوغات کا اے ڈی بھائی
اوپن یونیورسٹی کے عابد خواجہ

میں نے جب بطور پروڈیوسر ، 1974 میں کوئٹہ اسٹیشن جائن کیا اور وہاں عابد خواجہ سے تعارف ہوا تو مجھے لگا کہ شاید مجھے بات سننے میں غلطی لگی ہے – سفید سروں والے تو پروڈیوسر تھے لیکن ینگ عابد خواجہ سینئر پروفیسر – ان دنوں میں پروڈیوسر سے سینیئر پروڈیوسر بننے میں کئی لوگوں کو پندرہ سولہ سال کا انتظار کرنا پڑا – سوچا شاید تعارف غلط ہو گیا ، عابد خواجہ تو عمر میں ہم سے بھی کم لگ رہے تھے اور سروس بھی مشکل سے دو تین سال ہی ہوگی – بہرحال کچھ عرصے کے بعد ہمیں خواجہ صاحب کے ساتھ ہی دفتری پڑاو ملا- خواجہ صاحب بہت جلد گھلنے ملنے والے نہیں ، ایک ہی کمرے میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا اور ان کے مزاج ، پروفیشن اور ہلکی پھلکی باتوں کے بارے میں تفصیل سے پتہ چلا تو معلوم ہوا کہ خواجہ صاحب انتہائی پروفیشنل براڈ کاسٹر ، مزاح میں ایک خاص ذوق کے مالک اور دوستی کے انتہائی محدود حلقے میں خوش رہنے والے ہیں – یہ سینارٹی انہیں۔سینئر پروڈیوسری کے اوپن انٹرویو میں ملی تھی- ان کے مزاج کی بدولت ان سے 1974/ 5 سے گہرے تعلق کی بنیاد پڑی ، جو چھ سال تک تو کوئٹہ میں قائم رہی اور اس کے بعد وہ ریڈیو پاکستان سے اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں میڈیا سیل میں سینئر پروڈیوسر ہو کر کوئٹہ چھوڑ آئے – عابد خواجہ کوئٹہ کے آبادکار ہیں ، ان کی پیدائش کوئٹہ کی ہے – لیکن دادا کا علاقہ راولپنڈی تھا ، سو پنڈی ان کا ایک طرح سے ان کا آبائی وطن تھا – اتفاق سے ایک سال بعد ہی میں بھی راولپنڈی آگیا اور پھر ہمارے دن اکٹھے گزرنے لگے اور اب 2017 ہے – اس تعلق کو 42 سال ہوگئے ہیں –
کوئٹہ میں قیام کے دوران عابد صاحب نے ڈسک جاکی پروگرام گلدستہ کا آغاز کیا – اس فارمیٹ کے پروگرام ریڈیو پاکستان میں 1974/5 میں پہلی بار متعارف کرائے گئے تھے – ہلکی پھلکی تیز اور فریش موسیقی کے ساتھ لطائف اور مزاحیہ خاکے کا امتزاج صبح کی نشریات میں انتہائی کامیاب تجربہ ثابت ہوا – کوئٹہ کا گلدستہ ، لاہور کا سات رنگ ، ملتان کا سرود سحر ، راولپنڈی کا راول رویل اور کراچی کا صبحدم دروازہ خاور کھلا ، ان دنوں کے مقبول ترین پروگراموں میں سے تھے – اور یہ پروگرام ایک طرح سے ریڈیو پاکستان کے ایک گھنٹہ نشریات کا رول ماڈل بنے ، جس کے بعد ایف ایم ریڈیو نے انہی کی انداز میں اپنے پروگرام پیش کئے اور نجی ٹیلی ویژن چینل بھی تقریبا” اسی پیٹرن پر پروگرام لے کر منصہ شہود پر آئے – پی ٹی وی میں طلعت حسین کے مارننگ شو کا آئیڈیا اور فارمیٹ تو نوید ظفر مرحوم نے ریڈیو پاکستان اسلام آباد میں بیٹھ کر ہمارے ساتھ ڈسکس کر کے تیار کیا تھا – وہی اس ٹی وی پروگرام کے خالق تھے – یہ چند سطور جدید نشریات کے طالب علموں کی یاد دہانی کیلئے لکھ دی ہیں –
بات ہو رہی تھی کوئٹہ کے گلدستہ کی – ایک سال تک نہایت کامیابی سے اور مقبولیت کی معراج کو چھو لینے کے بعد عابد صاحب نے گلدستہ پروگرام چھوڑ دیا – اس پر متبادل پروڈیوسر کے طور پر میرے سینئرز کی نظر مجھ پر پڑی اور وہ پروگرام ساڑھے تین سال تک مجھے نشر کرنے کا خوش گوار اتفاق ہوا – اس پروگرام کی مقبولیت کا کوئٹہ میں یہ عالم تھا کہ اس کا ریسپانس گورنر ہاوس سے لیکر کیفے صادق پر چولہا جلانے والے مزدور تک سے آتا تھا – ایک بار منشی کڑاھی گوشت والے کو نئی کمپیئر خاتون کی آواز پسند نہیں آئی تو اس نے احتجاجا” میرے لئے کڑاہی گوشت بنانے سے انکار کر دیا تھا – وہ دو گھونٹ چڑھا کر کڑاہی بناتا تھا اور بڑی مشکل سے میرا کھانا تیار کرنے پر راضی ہوا – دوسرے دن وہ کمپیئر تبدیل کر دی گئی تھی –
ریڈیو پروگراموں کے ساتھ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ کئی لوگ سمجھتے ہیں یہ ریڈیو والے باتیں ہی تو کئے جارہے ہیں ، وہ تو ہم بھی کر سکتے ہیں ، لیکن ریڈیو پروگرام کے بظاہر سادہ سے گفتگو جو سکرپٹ کی بنیاد پر ہوتی ہے ، اس میں کیا پتے لگے ہیں ، کیسی مہارت ہے ، یہ کام ذرا دیر سے ہی سمجھ میں آتا ہے – مجھے لکھنے کا تھوڑا بہت تجربہ تو پہلے سے تھا لیکن ریڈیو سکرپٹ کی نزاکتیں میں نے عابد خواجہ سے سیکھی ہیں – میں انہیں اس فیلڈ میں اپنا استاد کہتا ہوں –
کچھ عرصہ بعد ریڈیو ہیڈ کوارٹر سے ہمارا پاکستان کے نام سے بین الصوبائی سطح پر فیچر پروگرام شروع کرنے کا حکم ملا- بھٹو مرحوم کے زمانے میں ریڈیو کا مائیک اپنے اسٹوڈیو کے بند ماحول سے نکل کر عوام کی صفوں میں آگیا تھا اور اس دور میں جتنی ورائٹی کے پروگرام تخلیق ہوئے ، وہ اپنی مثال آپ ہے – ہمارا پاکستان شروع ہونے سے پہلے عابد خواجہ گستاخی معاف کے نام سے ایک دس منٹ کا مزاحیہ فیچر شروع کر چکے تھے جس میں کوئٹہ کا لوکل کیریکٹر خیرو ماما کا کردار ، سہیل بخاری اور ایک فارن پلٹ اللہ دتہ یعنی اے ڈی کا کردار عابد صاحب خود ادا کرتے تھے ، اس کا سکرپٹ بھی وہ خود ہی لکھتے تھے – یہ فیچر سہیل بخاری کی بے ساختہ صدا کاری اے ڈی بھائی کے مزاحیہ فقرے اور سکرپٹ کے حسن کی وجہ سے کوئٹہ میں فورا” مقبولیت کی آخری حدوں کو چھونے لگا – ہمارا پاکستان فیچر کا حکمنامہ آیا تو نشریاتی رابطے کیلئے گستاخی معاف کا پروگرام ہی پیش کر دیا گیا – اے ڈی بھائی کے بولنے اور سکرپٹ کے انداز سے ہی متاثر ہوکر اطہر شاہ خان کے جیدی نے پی ٹی وی کراچی کے سٹوڈیو میں جنم لیا – ٹی وی سکرین کی کشش میں جیدی نے قومی سطح پر بہت شہرت پائی-
یہ بات تو کوئٹہ والے ہی بتا سکتے ہیں کہ عابد صاحب کے بعد تین ساڑھے تین سال تک میں نے گلدستہ کس طرح پیش کیا – بہرحال اس پروگرام میں مختصر نویسی نے میری تحریر پر ایک گہرا اثر چھوڑا اور میں نے اپنی پہلی کتاب چوکور پہیئے اسی کے زیر اثر لکھی ، جو ادبی دنیا میں میری پہلی شناخت ثابت ہوئی –
راولپنڈی آنے پر مجھے بہت جلد مارننگ کا پروگرام دیا گیا ، یہ پہلے کچھ نغمے کچھ باتیں کے نام سے تھا – میں کمپیئر کی گاڑھی اردو سے تنگ تھا اور بد دلی سے نبھا ریا تھا ایک دن مجھے یہ حکم ملا کہ جنرل ضیا الحق ہمارا صبح کا پروگرام سنتے ہیں- اس پر خصوصی توجہ دی جائے- یہ تفصیل میں پہلے کسی پوسٹ میں لکھ چکا ہوں ، بہرحال میری خواہش پر کمپیئر کو ہٹا دیا گیا – نئی آوازیں اور نئے سکرپٹ رائٹر کی اجازت مل گئی اور یہاں سے میرا اور عابد خواجہ کے ساتھ ذاتی کے علاوہ نشریاتی سنگت کا آغاز ہوا – جلد ہی میری درخواست پر اے ڈی بھائی کا کردار بھی زندہ کر لیا گیا ، اس فیچر کا نام فارن کا ہارن رکھا گیا اور اس میں اے ڈی بھائی کے ساتھ میں اپنے نام اور پروڈیوسر کے کردار کے ساتھ آتا تھا ، اس کے علاوہ ایک یا دو سپورٹنگ کردار ہوتے تھے – یہ سلسلہ کم و بیش تیرہ چودہ برس چلا – پنڈی، اسلام آباد کے سامعین اب تک اے ڈی بھائی کو یاد کرتے ہیں –
اس فیچر کے علاوہ عابد صاحب نے ریڈیو کیلئے بے شمار پلے لکھے ہیں – یعنی پچاس منٹ کے ریڈیو ڈرامے جو وقتا” فوقتا” مختلف پروڈیوسرز کی فرمائش پر لکھے گئے –
ذاتی زندگی میں بھی ہمارا وقت اکٹھے گزرا – یہ تصویر اکیس برس پرانی ہے ، اور چہرے تازہ ہیں – چند دن پہلے خواجہ صاحب میرے ہاں تشریف لائے – بہت دنوں کے بعد ملاقات ہو رہی تھی – نئی تصویر میں آج کے زمانے کے ہمارے پرانے چہرے بھی آپ دیکھ سکتے ہیں – پہلے کبھی روز یا ہفتے میں پانچ دن ملاقات ہوتی تھی – اب گھر بہت دور ہیں – اس کے علاوہ خواجہ صاحب کو وقتا” فوقتا” اپنے بچوں کے پاس فارن جانا پڑتا ہے اور ہمارے ہاں فارن کا ہارن پیش کرتے کرتے اب واقعی فارن میں ہر سال میں آدھا تو وہیں گزار آتے ہیں – اس لئے ملاقات مشکل سے ہی ہو پاتی ہے –
عابد صاحب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے میڈیا انسٹی ٹیوٹ کے ہیڈ کے طور پر سن سات میں ہی ریٹائر ہوئے – یہی میری ریٹائرمنٹ کا سال تھا – ان کی صحت اللہ پاک کے کرم سے بہت اچھی ہے- میڈیا انفارمیشن میں کئی ممالک سے کورسز کر چکے ہیں اور براڈ کاسٹنگ کے بہت اچھے ٹیچر ہیں – ملتے ہیں تو اپنی باتوں سے خوش رنگ پھلجھڑیاں چھوڑتے ہیں – میری دعا ہے ، وہ سدا مسکراتے رہیں اور اپنے احباب کے حلقے میں خوشیوں کے پھول بکھیرتے رہیں –  15 جنوری   2017